خوف و ہراس کا حملہ جس طرح عموماً چند منٹوں میں شدت اختیار کرلیتا ہے اسی طرح چند منٹ یا گھنٹے ڈیڑھ میں خود ہی دور ہو جاتا ہے اور انسان خود کو نارمل محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتا ہے اور بعض اوقات آپ خود گھبراہٹ کی اصل وجہ تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
عام طور پر عدم تحفظ کا احساس، غیر یقینی صورت حال اور بےبسی جیسی کیفیات خوف اور گھبراہٹ کو جنم دیتی ہیں لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ سوچتے ہیں کہ دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور آپ بھی دنیا کے ساتھ فنا ہو جائیں گے یا پھر ممکن ہے دل کا دورہ آپ کی اچانک موت کا سبب بن جائے یا کوئی اور حادثہ آپ کی زندگی کا خاتمہ کردے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کمرے میں آرام سے بیٹھے ہوں یا کسی دوست سے گفتگو کررہے ہوں اور خوف آپ پر اچانک حملہ کردے۔ آپ کو ایسا محسوس ہو جیسے دل کی دھڑکن ڈوبتی جارہی ہے آپ کے ہاتھوں پر پسینہ آجائے اور آنکھوں کے سامنے دھند چھا جائے۔ آپ سخت قسم کی گھبراہٹ اور خوف کا شکار ہو جائیں۔ آپ چاہنے کے باوجود وہاں سے اٹھ نہ سکیں اور آپ کو ایسا لگے کہ آپ ساکت ہوگئے ہیں اس قسم کی کیفیت انتہائی بے چینی خوف و ہراس اور گھبراہٹ کی عکاسی کرتی ہے ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ماہرین اس ضمن میں کیا کہتے ہیں ۔ آخر اس گھبراہٹ خوف اور بے چینی کی اصل وجہ کیا ہے؟ماہرین کی رائے میں ایسی کیفیات کے پیچھے بیشتر پوشیدہ محرکات ہوتے ہیں جن کا تعلق انسان کی ذات سے بہت گہرا ہوتا ہے جب آپ کسی مشکل صورت حال سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا حل سوچتے ہیں لیکن جب مسئلے کا کوئی حل سمجھائی نہیں دیتا اور آپ خود کو حالات کے سامنے شدید بے بس خیال کرتے ہیں ایسی صورت حال میں خوف اور گھبراہٹ چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے اس کے علاوہ جب ہمیں کسی جذباتی صدمے کا پیشگی احساس ہو جائے تو بھی خوف ہمیں گھیر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کہیں انٹرویو کے لئے جانا ہے ایسے میں ناکامی کا احساس آپ کو خوف میں مبتلا کرسکتا ہے اسی طرح کسی بیمار عزیز کی موت کا پیشگی احساس آپ کو خوفزدہ کرسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب آپ پریشانی کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو خوف کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی چند نفسیاتی وجوہات ہیں۔
ہمارے خون میں PANICOGENSنامی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جب اس کی مقدار خون میں بڑھ جاتی ہے تو انسان پر خوف و ہراس یا گھبراہٹ و بے چینی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے انسانی جسم اس سے نجات پانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو خوف حملہ کردیتا ہے ۔ تاہم اس کے علاوہ بھی خوف کی متعدد اقسام ہیں اور ان کا انحصار انسان کی اپنی شخصیت پر ہوتا ہے۔ یہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو فطری طور پر پریشان کن رویوں کے مالک ہوتے ہیں یا پریشان رہنا ان کی خصوصیت ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق بلاشبہ مختلف نوعیت کے حادثات و واقعات انسان کے لئے پریشانی گھبراہٹ یا خوف کا سبب بنتے ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کا سبب انسان کا وہ رویہ ہوتا ہے جس میں اس کے فیصلوں کی شدت شامل ہوتی ہے۔
خوف و ہراس کا حملہ جس طرح عموماً چند منٹوں میں شدت اختیار کرلیتا ہے اسی طرح چند منٹ یا گھنٹے ڈیڑھ گھنٹہ میں خود ہی دور ہو جاتا ہے اور انسان خود کو نارمل محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ کہیں بھی اور کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتا ہے اور بعض اوقات آپ خود گھبراہٹ کی اصل وجہ تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ پر سکون بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہوں یا مطالعے میں مصروف ہوں کہ اچانک سر میں ہلکا ہلکا درد شروع ہو جائے اور پھر آہستہ آہستہ آپ انجانے خوف کا شکار ہونے لگیں۔ آپ کے دل کی رفتار تیز ہو جائے سانس پھول جائے اور آپ کو ایسا لگے جیسے آخری وقت آگیا ہے ۔ موت سامنے نظر آنے لگے لیکن تھوڑا سا وقت گزرنے کے بعد آپ کے خیالات بدلنے لگیں اور آپ کو یقین ہونے لگے کہ آپ غلط سوچ رہے تھے سب کچھ تو درست ہے۔ایک معروف وکیل نے ماہر نفسیات کو بتایا کہ جب میں لفٹ استعمال کرتا ہوں اور خصوصاً ایسے وقت میں جب لفٹ میں زیادہ افراد ہوں تو مجھ پر سخت قسم کا خوف طاری ہو جاتا ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ میں بند دروازہ توڑ کر باہر نکل جائوں چیخوں اور چلائوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کسی خوفناک قسم کے موت کے کنویں میں گرتا جارہا ہوں۔ میرے لئے یہ کیفیت روزانہ برداشت کرنا بہت اذیت ناک تھی۔ اب میں 10 منزلیں پیدل چڑھنا پسند کرتا ہوں اس کے بجائے کہ مجھے لفٹ سے جانا پڑے۔
حد سے زیادہ مصروفیت اور کام کا دبائو:لوگوں سے چھوٹی موٹی چپقلش‘ افسران کا سخت گیر رویہ ‘ساتھیوں کا جارحانہ پن اور بعض افراد کے دو غلے رویے بھی پریشانی اور گھبراہٹ کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض وہ باتیں بھی خوف اور پریشانی کا سبب بنتی ہیں جو مستقل نوعیت کی ہوں جیسے روزگار کا نہ ہونا، خواہشات کی لامحدودیت اور وسائل کی کمیابی وغیرہ تاہم ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے خوف جن کا حقائق سے واسطہ نہیں ہوتا ان کا خود تنویمی عمل کے ذریعے علاج کیا جاسکتا ہے۔ مثلاًلفٹ سے گرنے اور مرنے کا خوف حقائق سے قریب تر نہیں۔ خصوصاً ان حالات میں جب آپ کے ساتھ دیگر لوگ بھی موجود ہوں۔ اس قسم کے خوف کے شکار لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ دوسروں کو بھی اپنی زندگیاں ویسی ہی پیاری ہیں اور وہ بھی انہی کی طرح کے انسان ہیں۔ جب وہ اس عمل سے خوفزدہ یا گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوتے تو انہیں بھی گھبرانا نہیں چاہیے۔گھبراہٹ ، بے چینی اضطراب اورخوف جیسے ہی آپ پر حملہ آور ہو آپ کوشش کریں کہ اس پر توجہ نہ دیں۔ آپ بار بار خود کو یہ بات سمجھائیں کہ میں خواہ مخواہ وہم کا شکار ہورہا ہوں کہیں کوئی گڑ بڑ نہیں ہے آپ سوچیں! آپ بلاوجہ ایک ایسی عادت تلے زندگی گزار رہے ہیں جس نے آپ کی زندگی کو تباہ برباد کر رکھا ہے۔ آپ عزم کریں کہ اس قسم کے ان دیکھے خطرات کو آپ خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے آپ خود کو سمجھائیں کہ تمام حالات آپ کے قابو میں ہیں کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور آپ آسانی سے خوف کو بھگا دیں گے آپ گھبراہٹ کے حملے کے دوران کوئی سرگرمی اختیار کریں۔ ہلکی ہلکی سیٹی بجائیں کسی اچھے اور خوشگوار واقعہ کے بارے میں سوچیں اپنے ماضی اور مستقبل کی کامیابیوں کو ذہن میں دہرائیں کوشش کریں کہ آپ با اعتماد رہیں۔اس سے آپ کو کسی حد تک خوف پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ زندگی بے شک بد قسمتی سے بھری ہوتی ہے لیکن اکثر بد قسمتی وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
گھبراہٹ پر قابو پانے کے لئے ایک معروف سائیکاٹرسٹ کی چند باتیں یاد رکھیں۔یہ دیکھیں کہ ہوکیا رہا ہے یہ نہ سوچیں کہ کیا ہوگا؟۔خوف کی صورت میں اپنی توجہ دیگر مشاغل کی طرف موڑ دیں۔ لوگوں سے باتیں کریں، خوشگوارلوگوں سے ملاقات کریں۔کسی پارک کارخ کریں‘ پرانے دوستوں سے ملیں۔اگر آپ ہجوم میں پھنسے ہوئے ہیں اور دھکم پیل ہورہی ہے تو آہستہ آہستہ وہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کریں اور سوچیں کہ کوئی بات نہیں تھوڑی دیر بعد آپ کو آرام کا موقع مل جائے گا۔خوف سے لڑائی مت کریں۔ آپ اس کیفیت سے باہر آنے کا انتظار کریں اگر آپ لڑائی کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ پر جنونی کیفیت طاری ہوجائے اور آپ خوف کی بیماری یعنی ’’فوبیا‘‘ کا شکار ہو جائیں۔ خوف دراصل آپ کے دفتر اور گھریلو زندگی کے تعلقات سے جنم لیتا ہے۔ یہ خالصتاً اندرونی کیفیت ہے اگر مذکورہ باتوں پر حتی الامکان عمل کرنے کے باوجود آپ خوف سے چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتے تو کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں